!دلِ منتظر میری بات سن
یہ جو خواب ہیں عروج کےیہ بن زوال ،ہیں ادھورے
میری آنکھ کو، جو بھا گئے
وہ سب ملال سے ہیں بھرے
میرے وہم و گمان میں جو خوف ہیں
نئے نئے سے ہیں مگر
میرا سہارا ،ابھی ہے چھوٹا
ابھی ضد نہ کر
!ِمنتظر دل میری بات سن
وہ جو ہے ابھی اسے تھام لے
کہ وہ ہمیشہ، سے ہے کھڑ ا
دلِ منتظر میری بات سن۔ ۔۔
Comments
Post a Comment